ہومیوپیتھی کی دنیا میں ترقی
جرمنی
1812ء تک جرمنی میں ہومیوپیتھی کا صرف ایک ہی نمائندہ تھا اور وہ ہانمن اعظم تھے۔1810ء میں آپ لپزگ (جرمنی)میں تشریف لائے اور 1812 ء میں آپکو لپزگ یونیورسٹی میں لیکچر دینے کی اجازت مل گئی۔جلد ہی آپکے گرد شاگردوں اور پیروؤں کی ایک ایسی جماعت اکٹھی ہو گئی جس نے آپ کی زبان سے اس علم کا حال سنا، ادویات کے خواص معلوم کرنے میں آپکی مدد کی اور پھر عملی طور پر اس فن کو اختیار کیا۔یہ جرمنی میں ہومیوپیتھی کی ابتداء تھی بعدازاں ہومیوپیتھس کی تعداد دن بدن بڑھتی چلی گئی۔
1832ء میں لپزگ میں ایک ہسپتال قائم ہوا جس میں دو سو مریضوں کو داخل کرنے کا بندوبست تھا۔متعدد رسالہ جات جاری ہوئے۔1876 میں جرمنی میں 300 ہومیوپیتھس پریکٹس کرتے تھے۔1892 ء میں 400 اور1900 ء میں 500 تک جا پہنچے تھے۔لپزگ کے ہومیوپیتھک ہسپتال کے علاوہ، میونخ، سٹیٹ گرٹ اور برلن میں بھی ہومیوپیتھک ہسپتال کھولے گئے۔اس کے علاوہ تمام مملکت جرمنی میں عام ہومیوپیتھس کا تو شمار ہ نہ تھا۔ان کی اپنی انجمنیں قائم تھیں۔ڈاکٹر لور بیکر 1892ء میں لکھتے ہیں کہ پورے کا پورا جرمنی ہومیوپیتھی کے شیدائیوں سے پر تھااور ان شدائیوں کی آواز بہت سے رسالہ جات کے ذریعہ باہر تک پھیلتی تھی۔
ہندوستان:
1891ء میں ڈاکٹر مہندر لال سرکارجو کلکتہ یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے اور کلکتہ میں ایک اہم شخصیت کے حامل تھے، نے ایلوپیتھی ترک کر کے ہومیوپیتھی اختیار کی۔درحقیقیت ہندوستان میں ہومیوپیتھی کی ہسٹری ڈاکٹر سرکار سے ہی شروع ہوتی ہے۔ڈاکٹر سرکار نے غریبوں کے لئے ایک فری ڈسپنسری اور ایک رسالہ جاری کیاجسکا نام "کلتہ جرنکل آف میڈیسن " تھا جو کہ آخری دم تک اکیلے ہی چلاتے رہے۔1891 ء میں انھوں نے رپورٹ پیش کی کہ کلکتہ میں30ہومیوپیتھک فزیشن تھے اور اتنی ہی تعداد میں ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں موجود تھے۔اس کے علاوہ عام پبلک میں اس علم کے حاصل کرنے کی اس قدر خواہش پید ا ہوئی کہ ڈاکٹر موجمدار اور ڈاکٹر بوس نے دو ہومیوپیتھک سکول کلکتہ میں جاری کئے۔ان دونوں نے دو رسالے بھی جاری کئے۔جنکے نام انڈین ہومیوپیتھک ریویواور انڈین ہومیوپیتھیشین تھے۔
نوٹ: اس صفحہ پر کام جاری ہے
1891ء میں ڈاکٹر مہندر لال سرکارجو کلکتہ یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے اور کلکتہ میں ایک اہم شخصیت کے حامل تھے، نے ایلوپیتھی ترک کر کے ہومیوپیتھی اختیار کی۔درحقیقیت ہندوستان میں ہومیوپیتھی کی ہسٹری ڈاکٹر سرکار سے ہی شروع ہوتی ہے۔ڈاکٹر سرکار نے غریبوں کے لئے ایک فری ڈسپنسری اور ایک رسالہ جاری کیاجسکا نام "کلتہ جرنکل آف میڈیسن " تھا جو کہ آخری دم تک اکیلے ہی چلاتے رہے۔1891 ء میں انھوں نے رپورٹ پیش کی کہ کلکتہ میں30ہومیوپیتھک فزیشن تھے اور اتنی ہی تعداد میں ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں موجود تھے۔اس کے علاوہ عام پبلک میں اس علم کے حاصل کرنے کی اس قدر خواہش پید ا ہوئی کہ ڈاکٹر موجمدار اور ڈاکٹر بوس نے دو ہومیوپیتھک سکول کلکتہ میں جاری کئے۔ان دونوں نے دو رسالے بھی جاری کئے۔جنکے نام انڈین ہومیوپیتھک ریویواور انڈین ہومیوپیتھیشین تھے۔
نوٹ: اس صفحہ پر کام جاری ہے
Test
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں