ایکسیڈینٹ سے شدید متاثر ہونےوالے سید حسنین عباس صاحب کا ایک یاد گار کیس
ہومیوپیتھک ڈاکٹر
عدنان جاوید
ڈی ایچ ایم ایس
ایم ایس سی نفسیات
ایم ائے اسلامیات
ایم ایس سی کمپیوٹر سائنس
سن 2011 ء کا واقعہ ہے۔غالباً ماہ اکتوبر تھا۔مجھے رات آٹھ بجے کے قریب سید علی عباس صاحب مقیم اسلام آباد کی طرف سے ایک ایمرجینسی کال موصول ہوئی کہ انکے چھوٹے بھائی سید حسنین عباس صاحب کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے ۔انکے مطابق انکے چھوٹے بھائی سید حسنین عباس شام چار بجے کے قریب موٹر سائیکل پر گھر سے نکلے ہی تھے کہ کچھ ہی دور جا کر ایک اور نہایت تیز رفتار موٹرسائیکل انکی بائیک سے زور سے جا ٹکرائی جس کے فوراً بعد ہی سید حسنین عباس صاحب اپنے حواس کھو بیٹھے۔حسنین عباس صاحب کو فوری طور پر اسلام آباد کے معروف ہسپتال PIMS میں داخل کر دیا گیا۔
علی عباس صاحب کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں کوئی خاص علاج شروع نہیں کیا جا سکا جسکی وجہ یہ تھی کہ ڈاکٹر ز حتمی طور پر یہ جاننے سے قاصر تھے کہ چوٹ کہاں کہاں لگی ہے اور اسکی وجہ بھی یہ تھی کہ بیرونی سطح پر بظاہر کسی قسم کی معمولی چوٹ تک کا نشان حسنین عباس صاحب کے بدن پر سر سے پاوں تک کہیں موجود ہی نہیں تھا۔مگر اسکے باوجود انکی حالت نہایت تشویش ناک قرار دی جا چکی تھی۔
ڈاکٹرز ا سی ٹی سکین وغیرہ کی رپورٹ کے منتظر تھے جس کے آنے میں ابھی تاخیرتھی۔اور اسی رپورٹ کی بنا پر ڈاکٹرز نے اپنا کام شرو ع کرنا تھا۔
میں نے فون پر ہی عرض کیا کہ میرے نزدیک لازماً علی عباس صاحب کے سر اور ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئے ہیں اور اندرون سر لازماً بلڈ کلاٹنگ ہو رہی ہے ۔ خیر میں نے فون پر انہیں فوری ضرورت کی ادویا ت تجویز کر دیں اور مسلسل رابطہ میں رہنے کی ہدایت کی۔
کچھ دیر بعد انھوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں خود بھی ایک بار آکر حسنین عباس صاحب کو دیکھ لوں اور میں بھی ایسا چاہتا تھا۔لہذا میں رات قریب دو بجے کے قریب ہسپتال روانہ ہوگیا۔
ہسپتال پہنچ کر میں نے حسنین عباس صاحب کا معائنہ شروع کیا۔وہ بے ہوش پڑے تھے۔میں نے سر سے پاوں تک بغور معائنہ کیا۔بظاہر معمولی چوٹ کا بھی نشان تک موجود نہیں تھا۔میں نے علی عباس صاحب سے دریافت کیا کہ کیا حسنین عباس صاحب نے اب تک پیشاب کیا ہے؟جسکا جواب نفی میں ملا۔
رات آٹھ بجے سے خاکسار کا علاج شروع ہوچکاتھا۔مجھے بتایا گیا کہ حسنین عباس صاحب کبھی تھوڑی دیر کے لئے آنکھ کھولتے ہیں مگر اردگرد کے ماحول سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں۔میری موجودگی ہی میں حسنین عباس صاحب نے تھوڑی دیر کے لئے آنکھ کھولی اور اور میری پکار اور گردوپیش کے ماحول سے بکلی بے خبر ادھر ادھر دیکھا اور پھر بے ہوش ہوگئے۔
علی عباس صاحب نے وہاں سے میری واپسی کے وقت مجھے بتایا کہ ڈاکٹرز کے نزدیک حسنین عباس صاحب کی حالت تشویش ناک ہے۔
میں نے علی عباس صاحب کو حوصلہ دیتے ہوئے امید دلائی اور دعا اورتجویز کردہ ادویات کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھنے کو کہا۔
خدا کی شان کہ ابھی میں آدھے راستے ہی میں تھا کہ علی عباس صاحب کا فون آیا اور بتانے لگے کہ حسنین عباس صاحب نے پیشاب کر دیا ہے اور اس مقصد کیلئے وہ خود اٹھے ہیں اور کسی عزیز کے ساتھ واش روم تک گئے اور پھر خود اندر سے کنڈی بھی لگائی۔اور فراغت کے بعد خود کنڈی کھول کر بستر تک آئے ہیں۔
میری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔الحمدللہ کہ ادویات ٹھیک نشانے پر بیٹھیں اور مطلوبہ نتائج چند گھنٹوں ہی میں حاصل ہوگئے۔میں نے نہایت خوشی اور پورے اعتماد سے علی عباس صاحب سے کہا کہ بفضل اللہ تعالی حسنین عباس خطرے سے باہر ہوچکے ہیں۔
دراصل سر میں چوٹ لگنے کے باعث خون کی کلاٹنگ کا عمل شرو ع ہوا تھا جس کے باعث بدن دماغ کا حکم قبول کرنے سے قاصر تھا۔حسنین عباس صاحب کو از خود پیشاب پر کنٹرول رکھتے ہوئے اسے خارج کرناایک نہایت قابل اطمینان علامت اس امر کی تھی کہ بلڈ کلاٹنگ ختم ہوچکی تھی اور حسنین عباس بفضل اللہ تعالیٰ خطرے سے باہر ہوچکے ہیں۔
پھر میری ہدایت کے مطابق ہسپتال سے ڈسچارج کروا کر حسنین عباس کو میرے کلینک پر لایا گیا۔حسنین عباس صاحب اپنے قدموں پر خود چل کر میرے کلینک میں داخل ہوئے۔علی عباس صاحب نے میری میز پر سی ٹی سکین رپورٹ بھی رکھی جس نے میری بات ہی کی تصدیق کر دی کہ دماغ میں خون کی کلاٹنگ ہوئی تھی اور ریڑھ بھی متاثر ہوئی جسکی تصدیق خود حسنین عباس صاحب نے ہاتھ لگا کر کر دی۔
اب کی بار حسنین عباس صاحب کی بائیں آنکھ میں خون کا بہت بڑا کلاٹ موجود تھا۔سر کے پچھلے حصہ میں درد محسوس کر رہے تھے گردن کی پچھلی جانب درد اور دباو تھے۔سر بوجھل محسوس ہو رہا تھا۔میں نے تفصیلی علامات ریکارڈ کرتے ہوئے نسخہ تجویز کر دیا اور مسلسل رابطہ میں رہنے کو کہا۔
ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد حسنین عباس صاحب مکمل طور پر صرف خاکسار ہی کے زیر علاج رہے اور دو ہفتہ کے اندر اندر حسنین عباس صاحب کی قریب تمام علامات میں زبردست بہتری آئی اور چوتھے ہفتے حسنین عباس صاحب نے ایک بار پھر سے زندگی کوخوش آمدید کہتے ہوئے اپنی ڈیوٹی کو جوائن کیا۔الحمدللہ۔
وہ دن اور آ ج کا دن،حسنین عباس صاحب کو اس سلسلہ میں کبھی کوئی تکلیف ظاہر نہیں ہوئی اور تب سے لیکراب تک وہ اپنی اور اپنی فیملی کی صحت سے متعلق خاکسار کے ساتھ رابطہ میں رہتے ہیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں