ایک کیس بیپٹیشیا کا ۔ میری پریکٹس کا ایک یاد گار کیس

 

ایک کیس بیپٹیشیا کا

میری پریکٹس کا ایک یاد گار کیس

از

ہومیوفزیشن و سائیکو تھراپسٹ

ڈاکٹرعدنان جاوید

ڈی۔ایچ۔ایم۔ایس

ایم۔ایس۔سی (سائیکالوجی)

ایم۔سی۔ایس (انفارمیشن ٹیکنالوجی)

ماہر نفسیاتی و جسمانی امراض (حاد و مزمن)

مردماں، نسواں و بچگان

بانی شفائے شافی ہومیوپیتھک ہیلتھ کیئر سسٹم

لاہور، پاکستان

واٹس ایپ : 03078888728

 

" سن 2012 کی سردیوں کے ایام تھے۔میں ڈی ایچ ایم ایس کے تیسرے سال کا طالب علم تھا ۔ ایک دن میری والدہ محترمہ کی طبیعت بعض وجوہات کی بنا پر جس میں ٹھنڈ لگ جانا ایک خصوصی اور نمایاں امر تھا,اچانک سخت خراب ہو گئی۔

والدہ محترمہ سورج ڈھلنے سے غالباً ایک ڈیڑھ گھنٹہ قبل گھر کے صحن میں تشریف لے گئیں تھیں ۔جب سورج ڈھلنے سے کچھ دیر قبل واپس اندر لوٹ ہی رہیں تھیں کہ ٹی وی لاونج کے دروازے پرمجھے ڈگمگاتی, لڑکھڑاتی، دروازے کے سہارے خود کو سنبھالنے کی کوشش کرتی دکھائی دیں۔اس سے پہلے کہ والدہ گر جاتیں میں نے بھاگ کر انکو تھام لیا۔

والدہ پر سخت غنودگی طاری ہو رہی تھی۔بہت ہی زور دے کر انہیں مخاطب کرتا تو کچھ توجہ کرنے کی کوشش کرتیں مگر معقولیت بالکل جاتی رہی ۔عجیب و غریب جوابات دینے لگیں۔سوال کچھ جواب کچھ۔پھر یہ کیفیت مزید بڑھی تو والدہ مدہوشی کی کیفیت میں خود سے ہی بڑ بڑانے لگیں اور بالکل بے معنی باتیں کرنے لگیں۔ان کی کیفیت کچھ ایسی ہو گئی جیسے کسی نے بہت ہی زیادہ نشہ کر لیا ہو۔ یہ سب کچھ بہت اچانک اور بہت تیزی سے ہو رہا تھا۔

اس وقت چند ادویات دی گئیں مگر والدہ کی کیفیت کسی صورت سنبھلنے میں نہ آرہی تھی اور وہ تیزی کے ساتھ بیماری کے ہاتھوں مغلوب ہوتی ہی چلی جا رہی تھیں۔

والدہ کے منہ سے کچھ ہی دیر بہت ناگوار بدبو آ نے لگی۔دانتوں پر میل ساجما ہوا دکھائی دینے لگا جیسا کہ ٹائیفائیڈ کے مریضوں میں ہوا کرتاہے ۔یہ سب کچھ اسقدر تیزی کے ساتھ ہو رہا تھاکہ میں اس تیزی پر بہت ہی حیران اور پریشان تھا ۔

شام قریب ۵ بجے سے رات قریب ۱۱ بجے تک بہتری کی کوئی صورت نظر نہ آئی ۔والدہ اس وقت تک تو اپنے بچے کھچے حواس بھی کھو بیٹھیں۔پہلے تو پھر جب تک زور دے کر انکو پکارتے تھے وہ جواب دینے کی کوشش کرتی تھیں اور انکی طرف سے رسپانس بھی ملتا تھا مگر اب والدہ کی کیفیت بہت بد تر ہو چکی تھی۔چہرہ بالکل بے رونق ہو کر رہ گیا۔گردن ڈھلک گئی تھی۔والدہ کے چہرے پر سخت تھکاوٹ اور اذیت کے آثار نمایاں طور پر دکھائی دے رہے تھے اور بہت زور زور سے ہلا کر بلانے پر بھی کسی بھی طرح کا رسپانس آ نا قطعاً بند ہوچکا تھا۔

والدہ کی ایسی تشویشناک حالت کے باوجود ایک لمحہ کےلئے بھی میرے دل میں یہ وسوسہ پیدا نہیں ہونے پایا تھاکہ انھیں ہسپتال لے جاوں۔ میں نظریاتی طور پر ہومیو پیتھی کے عظیم میدان میں اترا تھا حالانکہ میں سافٹ وئیر انجینئر تھا۔جس دن مجھے ہومیو پیتھی کے فلسفہ پر یقین پیدا ہوا تھا اسی دن سے ہومیوپیتھی کے سوا اور کوئی پیتھی میری اور میری فیملی کی زندگی میں باقی نہ رہی تھی۔ مجھے اللہ کے فضل سے ہومیوپیتھی پر پورا یقین تھا اور اللہ پر مکمل توکل تھا کہ وہ ضرور یہیں سے کوئی بہتری کا سبب پیدا کرگا اور یہ اعتماد اس سے قبل بھی کئی ایمرجینسیز ڈیل کر چکنے کے باعث اللہ کے فضل سے مجھ میں پیدا ہو چکا تھا۔

والدہ کی اس کیفیت سے ظاہر ہو رہا تھا کہ جلد درست دوا نہ ملنے کی صورت میں خدانخواستہ والدہ مکمل کوما کی حالت میں بھی جا سکتی ہیں۔ میں سخت فکر مند تھا ۔بس اللہ کے حضور سجدے میں گر کر والدہ کی صحتیابی اور درست دوا کی تلاش میں مدد کی دعا کی۔

دعا سے فراغت کے بعد میں نے فوراً والدہ کے کیس کو اپنی تمام تر فکر او ر گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے پورے غور و فکر کے ساتھ ایک بار پھر دیکھنا شروع کر دیا۔

اس دوران میں کینٹ ریپرٹری اور میٹیریا میڈیکا سے مختلف ادویات کا بہت گہرے طریق سے موازنہ و مقابلہ کرنے لگا۔

خدا کی شان کہ بہت ہی جلد میری توجہ رب کریم نے Baptisia کی جانب مبذول کروا دی جس کا ایک عمومی عکس ہومیوپیتھی کی تعلیم کے بالکل آغاز سے کہیں میرے ذہن پر نقش تھا۔میری نظر سر کینٹ کے درج ذیل الفاظ پر پڑی جو کہ بیپٹیشیا دوا کے بطور واحد، بالمثل اوریقینی انتخاب میں Baptisia کی دیگر مزاجی و امتیازی علامات کے ساتھ ساتھ حرف آخر ثابت ہوئے۔

“Every medicine must be observed as to its velocity, as to its pace, as to its periodicity, as to its motion, and its wave.”

یعنی ہر دوا کا لازماً اسکی تیزی، شرح رفتار، دورانیت میعاد، اسکی حرکت اور اسکی لہر کے تناظر میں مشاہدہ کرنا چاہیے۔

بس بیپٹیشیا میں موجود مرض کی نمائندہ علامات کی تصویر اور سرکینٹ کے درج بالا بیان کی بنیاد پر اللہ تعالی نے میر ے قلب میں اس امر کو راسخ کردیا کہ Baptisia ہی وہ واحد بالمثل دوا ہے جو میری والدہ محترمہ کوشفا بخش زندگی کی طرف لوٹا سکتی ہے بشرطیکہ تقدیر جاری نہ ہو چکی ہو کیونکہ بیپٹیشیا نہ صرف یہ کے مریض کی موجودہ عمومی مزاجی کیفیت سے مطابقت رکھتی ثابت ہو رہہ تھی بلکہ سر کینٹ کے درج بالا بیان کے مطابق مرض کی تیزی، شرح رفتار وغیرہ سے بھی بھرپور مماثل ثابت ہو رہی تھی۔

خدا کی شان کہ دوا کا ایک قطرہ ہونٹوں کے اندر لگاتے ہی بہت ہی مختصر وقت میں نے والدہ کے چہرے موجود تمام تغیرات غائب ہوتے دیکھے ۔ چہرے پر موجود سخت اذیت اور تھکاوٹ کے آثار دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہونے لگے۔

میرے پاس صرف یہی ایک پیمانہ تھا جس کے باعث مجھے یقین حاصل ہو گیا کہ دوا کا انتخاب اللہ کے فضل سے بالکل درست ہے اور دوا ٹھیک نشانے پر بیٹھی ہے اور بہت تیزی سے کام کر رہی ہے ۔

میں مطمئن ہو کر انتظار کرنے لگا اور مستقل والدہ کی مکمل نگرانی کرتا رہا۔والدہ اب نہایت پرسکون ہو کر سو رہی تھیں۔

تین گھنٹے بعد میں نے دوا دوہرانے کا فیصلہ کیا اور ساتھ ہی والدہ کا رسپانس جاننے کےلئے انہیں بہت ہی آہستگی سے آواز دی۔

والدہ نے حیران کن طور پر فوراً رسپانس دیا اورمکمل ہوش و حواس میں کہا کہ مجھے سونے دو ناں۔

کہاں زور زور سے ہلا کر ہلا کر بلانے پر بھی والدہ کوئی رسپانس نہ دے پا رہی تھیں اور اب کہاں ہلکی سی آ واز پر بھرپور حواس میں رسپانس دیا۔اب کی بار نا سمجھی کے آثار باقی نہ رہے۔۔میں نے دوا دی اور انکو آرا م کرنے دیا اور بہت پرسکون نیند لیتی رہیں۔

صبح جب والدہ سوکر اٹھیں تو مکمل طور اپنے حواس میں تھیں۔چہرہ ہشاس بشاش۔ہم نے والدہ کو بتایا کہ رات کو وہ کس حالت میں چلی گئیں تھیں۔مگر میری والدہ کو کچھ بھی یاد نہ تھا۔وہ یقین نہیں کر پا رہی تھیں کہ ایسا بھی کچھ انکے ساتھ ہوا ہو گا۔انھیں آ ج تک کچھ بھی یاد نہیں۔

بعد ازاں چند روز مزید دوا جاری رہی اور والدہ تیزی کے ساتھ اپنی معمول کی زندگی کی طرف لوٹ آئیں۔ اور آج کے دن تک ماشا اللہ بالکل صحت مند ہیں اور پھر ایسی کیفیت سے کبھی دو چار نہیں ہوئیں ۔الحمدللہ

خدا کا بے شمار شکر تھا کہ اس نے درست سمت میں میری رہنمائی کرتے ہوئے والدہ کو واپس لوٹا دیا ۔

ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء

 


0/Post a Comment/Comments