ہومیوپیتھک کنسلٹنٹ
ڈاکٹر عدنان جاوید
ڈی۔ایچ۔ایم۔ایس
ایم۔سی۔ایس(انفارمیشن ٹیکنالوجی)
سی۔ای۔او (شفائے شافی ہومیوپیتھک ہیلتھ کئیر سسٹم)
ہومیو پیتھی کے متعلق عام طور پر دیگر کئی غلط فہمیوں کی طرح ایک یہ غلط فہمی بھی پائی اورپھیلائی جاتی ہے کہ روایتی طریقہ علاج کے مقابلہ میں یہ ایک سست طریقہ علاج ہے۔اسی وجہ سے ہومیوپیتھک طریقہ علاج ایمرجینسز سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور اس کا دائرہ کار صرف چند مخصوص امراض کے علاج معالجہ تک ہی محدود ہے۔
ایسی غلط فہمیوں کا باعث بننے والے طبقات میں سے ایک طبقہ تو وہ ہے جسکا ہومیوپیتھی سے براہ راست کوئی تعلق واسطہ ہی نہیں ہوتا اور نہ ہی اس نے ذاتی طور پر کبھی بھی ہومیوپیتھی کو سمجھنے یا اس سے استفادہ کی کوشش کی ہوتی ہے۔یہ طبقہ صرف سنی سنائی باتوں پر اکتفا کئے بیٹھا ہے۔
ایسی غلط فہمیوں کا باعث بننے والے طبقات میں سے ایک طبقہ تو وہ ہے جسکا ہومیوپیتھی سے براہ راست کوئی تعلق واسطہ ہی نہیں ہوتا اور نہ ہی اس نے ذاتی طور پر کبھی بھی ہومیوپیتھی کو سمجھنے یا اس سے استفادہ کی کوشش کی ہوتی ہے۔یہ طبقہ صرف سنی سنائی باتوں پر اکتفا کئے بیٹھا ہے۔
ایک طبقہ ایسے افرا د پر مشتمل آتا ہے جنھوں نے کسی حد تک ہومیوپیتھی کو سمجھنے کی کوشش ضرور کی ہوتی ہے مگر ہومیو پیتھی کی روح سے ناواقف ہونے اور باقاعدہ علم نہ رکھنے کے باعث وہ ہومیوپیتھک ادویات کو اپنے خود ساختہ مفروضات کی بے بنیاد کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش میں مصروف ہوجاتے ہیں اور بالآ خر اپن ناکامی کو ہومیوپیتھی کی طرف منسوب کرتے ہوئے اس عظیم سچائی سے منحرف ہوجاتے ہیں۔
ایک طبقہ ضمیر فروش نام نہاد پریکٹیشنرز کا ہے۔ یہ طبقہ ہومیوپیتھک علاج کے بنیادی اصولوں کو یکسر بالائے طاق رکھتے ہوئے اندھی پریکٹس کرتا ہے یا غیر حقیقی فوری رزلٹ سے مریض کو متاثر کرنے کیلئے ادویات میں Steroids و Cartisones وغیرہ کی ملاوٹ کرتا ہے۔بعض جیالے تو ہومیوپیتھی کے نام پر ایلوپیتھک کی ناجائز پریکٹس تک سے خوف نہیں کھاتے اور ان تمام امور کا نتیجہ سوائے ہومیوپیتھی جیسے عظیم فن کی بد نامی کے اور کچھ نہیں نکلتا۔
ان طبقات میں ایک طبقہ بے صبروں کا بھی ہے جو مروجہ روایتی طریقہ ہائے علاج کے ہاتھوں پورے صبر کے ساتھ اپنی جمع پونجی اور صحت لٹا کر جب مایوس کر دئیے جاتے ہیں تب خوش قسمتی سے اگر ایسے افراد کسی حقیقی ہومیوپیتھ تک پہنچ بھی جائیں تو باوجود اس کے کہ اپنی صحت کے انتہائی بگاڑ کی حالت میں یہ طبقہ آخری امید کے طور پر ہومیوپیتھی کی طرف رجوع کرتا ہے مگر پھر انکی تمام تر کوشش اس بات میں صرف ہو جاتی ہے کہ آخر انکی بیماری کا حقیقی نام کیا ہے اور وہ یقینی طور پر کتنے روز میں ختم ہوجائے گی؟ یہ طبقہ ہومیوپیتھی کے اصولوں پر توجہ کرنے کی بجائے ہومیو پیتھی کو روایتی طریقہ علاج سے موازنہ کرتے ہوئے ہی آزماتا ہے اور اپنی اس بے صبری کے باعث ڈاکٹر ز پر ڈاکٹرز بدلنے کی عادت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔اس طرح ہومیوپیتھک طریق علاج کے فلسفہ اور تقاضوں سے بدظن ہوکر علاج معالجہ کے لئے اپنی اس آخری امید یعنی ہومیوپیتھی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور نتیجہ سوائے دکھ پر دکھ اٹھائے چلے جانے کی کچھ نہیں نکلتا۔
پس ان طبقات سے تعلق رکھنے والے احباب یا تو سرے سے ہی ہومیوپیتھی کی افادیت سے منحرف ہوجاتے ہیں یا پھر ہومیوپیتھی سے متعلق طرح طرح کی غلط فہمیوں کا شکار ہوکر ان غلط فہمیوں کو پھیلانے کا باعث بن جاتے ہیں جسکے باعث عوام الناس کی اکثریت ایک بہت ہی عظیم اور مفید طریقہ علاج کی افادیت سے محرو م رہ جاتی ہے۔
اعداد و شمار اس غلط تصور کی دھجیاں بکھیر چکے ہیں کہ ہومیوپیتھی ایک سست طریقہ علاج ہے۔پچھلے قریب دو سو سال سے اب تک ماہرین ِ ہومیوپیتھی کے تجربات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ روائتی طریقہ علاج کے مقابلہ میں ہومیوپیتھی ہر قسم کی ایمرجینسی میں مکمل اعتماد اور سرعت کے ساتھ ایک بہترین فرسٹ ایڈ مہیا کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔چاہے یہ ھارٹ اٹیک ہویا شدید نوعیت کے حادثاتی کیسز۔ایسے حالات میں بروقت اور درست دوا موت کی آغوش میں جاتے ہوئے انسان کوبفضل خدا موت کے کناروں سے زندگی کی طرف لوٹا دیتی ہے بشرطیکہ تقدیر جاری نہ ہوچکی ہو۔اور دیکھنے والا پکار اٹھتا ہے کہ گویا یہ کوئی جادو ہے یا معجزہ ہے۔
یہاں مثال کے طور پر صرف ایک کیس پیش کرتاہوں۔ باقی کیسز کی تفصیل اس آرٹیکل کے اختتام پر موجود لنک پر پڑھی جا سکتی ہے ۔
آج سے قریب دو سال قبل آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے قمر عباس صاحب نے اپنی والدہ کی تشویشناک حالت کے سلسلہ میں مجھ سے رابطہ کیا۔انکی والدہ ایمرجینسی میں راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل تھیں۔ انکا کہنا تھا کہ بقول ڈاکٹرزپوری کوشش کے باوجود انکا بلڈ پریشر تیزی سے خطرناک حد تک گرتا چلا جا رہا جو انکی سمجھ سے باہر ۔بس دعا کی جائے۔مجھ سے مشورہ لیا گیا تو میں نے علامات پر غور کرتےہوئے ایک ہومیوپیھتک دوا کاربو ویج تجویز کی اور تھوڑے تھوڑے وقفہ سے بار بار دہرانےکے ہدایت کرتے ہوئے رابطہ میں رہنےکی تلقین کی۔خدا کی شان کہ بہت ہی مختصر وقت میں انھوں نے دوبارہ کال کر کے خوش خبری دی کہ جیسے ہی دوا دینا شروع کی انکی والدہ کا بلڈ پریشر سنبھلنے لگا اور جوں جوں دوا کی دوہرائی ہوتی گئی ویسے ویسے بلڈ پریشر سنبھلتا ہی چلا گیا یہاں تک کہ وہ نارمل ہو گیا اور انکی والدہ خطرہ سے باہر ہوگئیں۔
یہ کرشماتی نتیجہ دیکھ کر انھوں نے میری ہدایت پر والدہ کو ہپستال سے ڈسچارج کروا دیا اور مکمل طور پر والدہ کو میرے زیر علاج کر دیا جسکے بعد انکی والدہ بہت مختصر وقت میں ہومیوپیتھک علاج کے ذریعہ اپنی کئی تکالیف سے آرام پاتی چلی گئیں ۔الحمدللہ
اسکے علاوہ حاد (Acute) اور دیرینہ پیچیدہ (Chronic)بیماریوں میں بھی ہومیوپیتھی مروجہ روایتی طریقہ علاج کے مقابلہ میں کئی گنا تیز رفتاری کے ساتھ مریض کی قوت دفاع کو مظبوط کرتے ہوئے مرض کو وقتی طور پر دبانے کی بجائے مرض کا جڑ سے ہی خاتمہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ہومیوپیتھی جب اپنے عروج کی انتہا کو چھو رہی تھی تب پہلی اینٹی بائیوٹک دوا Penicillin دریافت ہوئی تھی جسے ایک حیران کن جادوئی دوا سمجھا گیا جو گویا ہر مرض کا علاج متصور ہوئی۔اس دریافت سے وقتی طور پر ہومیوپیتھی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شہرت ضرو ر متاثر ہوئی مگر Antibiotics کے پچھلے پچاس برس کے مسلسل اور بکثرت استعمال سے وجود انسانی کی قوت دفاع کو لاحق ہونے والے ناقابل تلافی نقصانات اور بدترین نتائج نے ماہرین طب کو سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب ایک بار پھر سے ہومیوپیتھی نہایت تیزی کے ساتھ بے حد مقبول ہورہی ہے کیونکہ ہومیوپیتھی نہ صرف یہ کہ نہایت پیچیدہ امراض کا بغیر کسی سائیڈ ایفکٹ کے جڑ سے خاتمہ کر دیتی ہے بلکہ ایمرجینسز میں بھی روایتی طریقہ علاج کے بالمقابل کئی گناتیزی کے ساتھ نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور زندگی کولاحق مہیب خطرات سے انسانیت کو اس وقت باہر نکال لیتی جب دیگر روایتی طریقہ علاج بے بس ہو کر مایوس ہوچکے ہوتے ہیں۔
اس مختصر تمہید کے بعداب خاکسار اپنی پریکٹس کے بے شمار کامیاب کیسز میں سے بخوف طوالت بطورنہ نمونہ چند کیسز کو بطور ثبوت پیش کرتے ہوئے اپنے پیغام ِشفاء کا اختتام کرتا ہے۔
کامیاب کیسز پڑھنے کےلئے درج ذیل لنک پر کلک کریں ۔
اعداد و شمار اس غلط تصور کی دھجیاں بکھیر چکے ہیں کہ ہومیوپیتھی ایک سست طریقہ علاج ہے۔پچھلے قریب دو سو سال سے اب تک ماہرین ِ ہومیوپیتھی کے تجربات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ روائتی طریقہ علاج کے مقابلہ میں ہومیوپیتھی ہر قسم کی ایمرجینسی میں مکمل اعتماد اور سرعت کے ساتھ ایک بہترین فرسٹ ایڈ مہیا کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔چاہے یہ ھارٹ اٹیک ہویا شدید نوعیت کے حادثاتی کیسز۔ایسے حالات میں بروقت اور درست دوا موت کی آغوش میں جاتے ہوئے انسان کوبفضل خدا موت کے کناروں سے زندگی کی طرف لوٹا دیتی ہے بشرطیکہ تقدیر جاری نہ ہوچکی ہو۔اور دیکھنے والا پکار اٹھتا ہے کہ گویا یہ کوئی جادو ہے یا معجزہ ہے۔
یہاں مثال کے طور پر صرف ایک کیس پیش کرتاہوں۔ باقی کیسز کی تفصیل اس آرٹیکل کے اختتام پر موجود لنک پر پڑھی جا سکتی ہے ۔
آج سے قریب دو سال قبل آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے قمر عباس صاحب نے اپنی والدہ کی تشویشناک حالت کے سلسلہ میں مجھ سے رابطہ کیا۔انکی والدہ ایمرجینسی میں راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل تھیں۔ انکا کہنا تھا کہ بقول ڈاکٹرزپوری کوشش کے باوجود انکا بلڈ پریشر تیزی سے خطرناک حد تک گرتا چلا جا رہا جو انکی سمجھ سے باہر ۔بس دعا کی جائے۔مجھ سے مشورہ لیا گیا تو میں نے علامات پر غور کرتےہوئے ایک ہومیوپیھتک دوا کاربو ویج تجویز کی اور تھوڑے تھوڑے وقفہ سے بار بار دہرانےکے ہدایت کرتے ہوئے رابطہ میں رہنےکی تلقین کی۔خدا کی شان کہ بہت ہی مختصر وقت میں انھوں نے دوبارہ کال کر کے خوش خبری دی کہ جیسے ہی دوا دینا شروع کی انکی والدہ کا بلڈ پریشر سنبھلنے لگا اور جوں جوں دوا کی دوہرائی ہوتی گئی ویسے ویسے بلڈ پریشر سنبھلتا ہی چلا گیا یہاں تک کہ وہ نارمل ہو گیا اور انکی والدہ خطرہ سے باہر ہوگئیں۔
یہ کرشماتی نتیجہ دیکھ کر انھوں نے میری ہدایت پر والدہ کو ہپستال سے ڈسچارج کروا دیا اور مکمل طور پر والدہ کو میرے زیر علاج کر دیا جسکے بعد انکی والدہ بہت مختصر وقت میں ہومیوپیتھک علاج کے ذریعہ اپنی کئی تکالیف سے آرام پاتی چلی گئیں ۔الحمدللہ
اسکے علاوہ حاد (Acute) اور دیرینہ پیچیدہ (Chronic)بیماریوں میں بھی ہومیوپیتھی مروجہ روایتی طریقہ علاج کے مقابلہ میں کئی گنا تیز رفتاری کے ساتھ مریض کی قوت دفاع کو مظبوط کرتے ہوئے مرض کو وقتی طور پر دبانے کی بجائے مرض کا جڑ سے ہی خاتمہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ہومیوپیتھی جب اپنے عروج کی انتہا کو چھو رہی تھی تب پہلی اینٹی بائیوٹک دوا Penicillin دریافت ہوئی تھی جسے ایک حیران کن جادوئی دوا سمجھا گیا جو گویا ہر مرض کا علاج متصور ہوئی۔اس دریافت سے وقتی طور پر ہومیوپیتھی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شہرت ضرو ر متاثر ہوئی مگر Antibiotics کے پچھلے پچاس برس کے مسلسل اور بکثرت استعمال سے وجود انسانی کی قوت دفاع کو لاحق ہونے والے ناقابل تلافی نقصانات اور بدترین نتائج نے ماہرین طب کو سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب ایک بار پھر سے ہومیوپیتھی نہایت تیزی کے ساتھ بے حد مقبول ہورہی ہے کیونکہ ہومیوپیتھی نہ صرف یہ کہ نہایت پیچیدہ امراض کا بغیر کسی سائیڈ ایفکٹ کے جڑ سے خاتمہ کر دیتی ہے بلکہ ایمرجینسز میں بھی روایتی طریقہ علاج کے بالمقابل کئی گناتیزی کے ساتھ نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور زندگی کولاحق مہیب خطرات سے انسانیت کو اس وقت باہر نکال لیتی جب دیگر روایتی طریقہ علاج بے بس ہو کر مایوس ہوچکے ہوتے ہیں۔
اس مختصر تمہید کے بعداب خاکسار اپنی پریکٹس کے بے شمار کامیاب کیسز میں سے بخوف طوالت بطورنہ نمونہ چند کیسز کو بطور ثبوت پیش کرتے ہوئے اپنے پیغام ِشفاء کا اختتام کرتا ہے۔
کامیاب کیسز پڑھنے کےلئے درج ذیل لنک پر کلک کریں ۔

ایک تبصرہ شائع کریں